Welcome

Chat with your friends on Notesmela chatango chatroom :)

Saturday, September 4, 2010

Ya Rub Dil-e-Muslim ko wo Zinda Tamanna Dy ( Du'aa )

يا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے




يا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے

جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے

پھر وادي فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے

پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے

محروم تماشا کو پھر ديدئہ بينا دے

ديکھا ہے جو کچھ ميں نے اوروں کو بھي دکھلا دے

بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل

اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے

پيدا دل ويراں ميں پھر شورش محشر کر

اس محمل خالي کو پھر شاہد ليلا دے

اس دور کي ظلمت ميں ہر قلب پريشاں کو

وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے

رفعت ميں مقاصد کو ہمدوش ثريا کر

خودداري ساحل دے، آزادي دريا دے

بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو

سينوں ميں اجالا کر، دل صورت مينا دے

احساس عنايت کر آثار مصيبت کا

امروز کي شورش ميں انديشہء فردا دے

ميں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا

تاثير کا سائل ہوں ، محتاج کو ، داتا دے!



Jawab-e-Shikwa by Allama Iqbal

جواب شکوہ




دل سے جو بات نکلتي ہے اثر رکھتي ہے

پر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتي ہے

قدسي الاصل ہے' رفعت پہ نظر رکھتي ہے

خاک سے اٹھتي ہے ، گردوں پہ گزر رکھتي ہے

عشق تھا فتنہ گرو سرکش و چالاک مرا

آسماں چير گيا نالہ بے باک مرا

پير گردوں نے کہا سن کے' کہيں ہے کوئي

بولے سيارے' سر عرش بريں ہے کوئي

چاند کہتا تھا' نہيں! اہل زميں ہے کوئي

کہکشاں کہتي تھي' پوشيدہ يہيں ہے کوئي

کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا

مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

تھي فرشتوں کو بھي حيرت کہ يہ آواز ہے کيا

عرش والوں پہ بھي کھلتا نہيں يہ راز ہے کيا!

تا سر عرش بھي انساں کي تگ و تاز ہے کيا!

آگئي خاک کي چٹکي کو بھي پرواز ہے کيا!

غافل آداب سے سکان زميں کيسے ہيں

شوخ و گستاخ يہ پستي کے مکيں کيسے ہيں!

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھي برہم ہے

تھا جو مسجود ملائک' يہ وہي آدم ہے!

عالم کيف ہے' دانائے رموز کم ہے

ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو

بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو

آئي آواز' غم انگيز ہے افسانہ ترا

اشک بے تاب سے لبريز ہے پيمانہ ترا

آسماں گير ہوا نعرئہ مستانہ ترا

کس قدر شوخ زباں ہے دل ديوانہ ترا

شکر شکوے کو کيا حسن ادا سے تو نے

ہم سخن کر ديا نبدوں کو خدا سے تو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہيں' کوئي سائل ہي نہيں

راہ دکھلائيں کسے' رہر و منزل ہي نہيں

تربيت عام تو ہے' جوہر قابل ہي نہيں

جس سے تعمير ہو آدم کي' يہ وہ گل ہي نہيں

کوئي قابل ہو تو ہم شان کئي ديتے ہيں

ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھي نئي ديتے ہيں

ہاتھ بے زور ہيں' الحاد سے دل خوگر ہيں

امتي باعث رسوائي پيغمبر ہيں

بت شکن اٹھ گئے' باقي جو رہے بت گر ہيں

تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں

بادہ آشام نئے ، بادہ نيا' خم بھي نئے

حرم کعبہ نيا' بت بھي نئے' تم بھي نئے

وہ بھي دن تھے کہ يہي مايہ رعنائي تھا

نازش موسم گل لالہ صحرائي تھا

جو مسلمان تھا' اللہ کا سودائي تھا

کبھي محبوب تمھارا يہي ہرجائي تھا

کسي يکجائي سے اب عہد غلامي کر لو

ملت احمد مرسل کو مقامي کو لو!

کس قدر تم پہ گراں صبح کي بيداري ہے

ہم سے کب پيار ہے! ہاں نيند تمھيں پياري ہے

طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاري ہے

تمھي کہہ دو يہي آئين و فاداري ہے؟

قوم مذہب سے ہے' مذہب جو نہيں' تم بھي نہيں

جذب باہم جو نہيں' محفل انجم بھي نہيں

جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئي فن' تم ہو

نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن، تم ہو

بجلياں جس ميں ہوں آسودہ' وہ خرمن تم ہو

بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کي تجارت کرکے

کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے

صفحہ دہرئے سے باطل کو مٹايا کس نے؟

نوع انساں کو غلامي سے چھڑايا کس نے؟

ميرے کعبے کو جبينوں سے بسايا کس نے؟

ميرے قرآن کو سينوں سے لگايا کس نے؟

تھے تو آبا وہ تھارے ہي' مگر تم کيا ہو

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو!

کيا کہا ! بہر مسلماں ہے فقط وعدہ حور

شکوہ بے جا بھي کرے کوئي تو لازم ہے شعور

عدل ہے فاطر ہستي کا ازل سے دستور

مسلم آئيں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم ميں حوروں کا کوئي چاہنے والا ہي نہيں

جلوئہ طور تو موجود ہے' موسي ہي نہيں

منفعت ايک ہے اس قوم کي' نقصان بھي ايک

ايک ہي سب کا نبي' دين بھي' ايمان بھي ايک

حرم پاک بھي' اللہ بھي' قرآن بھي ايک

کچھ بڑي بات تھي ہوتے جو مسلمان بھي ايک

فرقہ بندي ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں

کيا زمانے ميں پنپنے کي يہي باتيں ہيں

کون ہے تارک آئين رسول مختار؟

مصلحت وقت کي ہے کس کے عمل کا معيار؟

کس کي آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟

ہوگئي کس کي نگہ طرز سلف سے بيزار؟

قلب ميں سوز نہيں' روح ميں احساس نہيں

کچھ بھي پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں

جاکے ہوتے ہيں مساجد ميں صف آرا' تو غريب

زحمت روزہ جو کرتے ہيں گوارا ، تو غريب

نام ليتا ہے اگر کوئي ہمارا' تو غريب

پردہ رکھتا ہے اگر کوئي تمھارا' تو غريب

امرا نشہ دولت ميں ہيں غافل ہم سے

زندہ ہے ملت بيضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کي وہ پختہ خيالي نہ رہي

برق طبعي نہ رہي، شعلہ مقالي نہ رہي

رہ گئي رسم اذاں روح بلالي نہ رہي

فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالي نہ رہي

مسجديں مرثيہ خواں ہيں کہ نمازي نہ رہے

يعني وہ صاحب اوصاف حجازي نہ رہے

شور ہے، ہو گئے دنيا سے مسلماں نابود

ہم يہ کہتے ہيں کہ تھے بھي کہيں مسلم موجود!

وضع ميں تم ہو نصاري تو تمدن ميں ہنود

يہ مسلماں ہيں! جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہود

يوں تو سيد بھي ہو، مرزا بھي ہو، افغان بھي ہو

تم سبھي کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھي ہو!

دم تقرير تھي مسلم کي صداقت بے باک

عدل اس کا تھا قوي، لوث مراعات سے پاک

شجر فطرت مسلم تھا حيا سے نم ناک

تھا شجاعت ميں وہ اک ہستي فوق الادراک

خود گدازي نم کيفيت صہبايش بود

خالي از خويش شدن صورت مينايش بود

ہر مسلماں رگ باطل کے ليے نشتر تھا

اس کے آئينہء ہستي ميں عمل جوہر تھا

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمھيں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بيٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر قابل ميراث پدر کيونکر ہو!

ہر کوئي مست مے ذوق تن آساني ہے

تم مسلماں ہو! يہ انداز مسلماني ہے!

حيدري فقر ہے نے دولت عثماني ہے

تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحاني ہے؟

وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم

تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم

چاہتے سب ہيں کہ ہوں اوج ثريا پہ مقيم

پہلے ويسا کوئي پيدا تو کرے قلب سليم

تخت فغفور بھي ان کا تھا، سرير کے بھي

يونہي باتيں ہيں کہ تم ميں وہ حميت ہے بھي؟

خودکشي شيوہ تمھارا، وہ غيور و خود دار

تم اخوت سے گريزاں، وہ اخوت پہ نثار

تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار

تم ترستے ہو کلي کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک ياد ہے قوموں کو حکايت ان کي

نقش ہے صفحہ ہستي پہ صداقت ان کي

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھي ہوئے

بت ہندي کي محبت ميں برہمن بھي ہوئے

شوق پرواز ميں مہجور نشيمن بھي ہوئے

بے عمل تھے ہي جواں ، دين سے بدظن بھي ہوئے

ان کو تہذيب نے ہر بند سے آزاد کيا

لا کے کعبے سے صنم خانے ميں آباد کيا

قيس زحمت کش تنہائي صحرا نہ رہے

شہر کي کھائے ہوا ، باديہ پيما نہ رہے

وہ تو ديوانہ ہے، بستي ميں رہے يا نہ رہے

يہ ضروري ہے حجاب رخ ليلا نہ رہے!

گلہ جور نہ ہو ، شکوئہ بيداد نہ ہو

عشق آزاد ہے ، کيوں حسن بھي آزاد نہ ہو!

عہد نو برق ہے ، آتش زن ہر خرمن ہے

ايمن اس سے کوئي صحرا نہ کوئي گلشن ہے

اس نئي آگ کا اقوام کہن ايندھن ہے

ملت ختم رسل شعلہ بہ پيراہن ہے

آج بھي ہو جو براہيم کا ايماں پيدا

آگ کر سکتي ہے انداز گلستاں پيدا

ديکھ کر رنگ چمن ہو نہ پريشاں مالي

کوکب غنچہ سے شاخيں ہيں چمکنے والي

خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالي

گل بر انداز ہے خون شہدا کي لالي

رنگ گردوں کا ذرا ديکھ تو عنابي ہے

يہ نکلتے ہوئے سورج کي افق تابي ہے

امتيں گلشن ہستي ميں ثمر چيدہ بھي ہيں

اور محروم ثمر بھي ہيں، خزاں ديدہ بھي ہيں

سينکڑوں نخل ہيں، کاہيدہ بھي، باليدہ بھي ہيں

سينکڑوں بطن چمن ميں ابھي پوشيدہ بھي ہيں

نخل اسلام نمونہ ہے برومندي کا

پھل ہے يہ سينکڑوں صديوں کي چمن بندي کا

پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تيرا

تو وہ يوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تيرا

قافلہ ہو نہ سکے گا کبھي ويراں تيرا

غير يک بانگ درا کچھ نہيں ساماں تيرا

نخل شمع استي و درشعلہ دود ريشہ تو

عاقبت سوز بود سايہ انديشہ تو

تو نہ مٹ جائے گا ايران کے مٹ جانے سے

نشہ مے کو تعلق نہيں پيمانے سے

ہے عياں يورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتي حق کا زمانے ميں سہارا تو ہے

عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ بپا يورش بلغاري کا

غافلوں کے ليے پيغام ہے بيداري کا

تو سمجھتا ہے يہ ساماں ہے دل آزاري کا

امتحاں ہے ترے ايثار کا، خود داري کا

کيوں ہراساں ہے صہيل فرس اعدا سے

نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

چشم اقوام سے مخفي ہے حقيقت تيري

ہے ابھي محفل ہستي کو ضرورت تيري

زندہ رکھتي ہے زمانے کو حرارت تيري

کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تيري

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھي باقي ہے

نور توحيد کا اتمام ابھي باقي ہے

مثل بو قيد ہے غنچے ميں، پريشاں ہوجا

رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا

ہے تنک مايہ تو ذرے سے بياباں ہوجا

نغمہ موج سے ہنگامہء طوفاں ہوجا!

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دے

ہو نہ يہ پھول تو بلبل کا ترنم بھي نہ ہو

چمن دہر ميں کليوں کا تبسم بھي نہ ہو

يہ نہ ساقي ہو تو پھرمے بھي نہ ہو، خم بھي نہ ہو

بزم توحيد بھي دنيا ميں نہ ہو، تم بھي نہ ہو

خيمہ افلاک کا استادہ اسي نام سے ہے

نبض ہستي تپش آمادہ اسي نام سے ہے

دشت ميں، دامن کہسار ميں، ميدان ميں ہے

بحر ميں، موج کي آغوش ميں، طوفان ميں ہے

چين کے شہر، مراقش کے بيابان ميں ہے

اور پوشيدہ مسلمان کے ايمان ميں ہے

چشم اقوام يہ نظارہ ابد تک ديکھے

رفعت شان 'رفعنالک ذکرک' ديکھے

مردم چشم زميں يعني وہ کالي دنيا

وہ تمھارے شہدا پالنے والي دنيا

گرمي مہر کي پروردہ ہلالي دنيا

عشق والے جسے کہتے ہيں بلالي دنيا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کي طرح

غوطہ زن نور ميں ہے آنکھ کے تارے کي طرح

عقل ہے تيري سپر، عشق ہے شمشير تري

مرے درويش! خلافت ہے جہاں گير تري

ماسوي اللہ کے ليے آگ ہے تکبير تري

تو مسلماں ہو تو تقدير ہے تدبير تري

کي محمد سے وفا تو نے تو ہم تيرے ہيں

يہ جہاں چيز ہے کيا، لوح و قلم تيرے ہيں



Shikwa By Allama Iqbal

شکوہ

کيوں زياں کار بنوں ، سود فراموش رہوں

فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا ميں بھي کوئي گل ہوں کہ خاموش رہوں

جرات آموز مري تاب سخن ہے مجھ کو

شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو

ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم

قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم

ساز خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم

نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہيں ہم

اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھي سن لے

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھي سن لے

تھي تو موجود ازل سے ہي تري ذات قديم

پھول تھا زيب چمن پر نہ پريشاں تھي شميم

شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عميم

بوئے گل پھيلتي کس طرح جو ہوتي نہ نسيم

ہم کو جمعيت خاطر يہ پريشاني تھي

ورنہ امت ترے محبوب کي ديواني تھي؟

ہم سے پہلے تھا عجب تيرے جہاں کا منظر

کہيں مسجود تھے پتھر ، کہيں معبود شجر

خوگر پيکر محسوس تھي انساں کي نظر

مانتا پھر کوئي ان ديکھے خدا کو کيونکر

تجھ کو معلوم ہے ، ليتا تھا کوئي نام ترا؟

قوت بازوئے مسلم نے کيا کام ترا

بس رہے تھے يہيں سلجوق بھي، توراني بھي

اہل چيں چين ميں ، ايران ميں ساساني بھي

اسي معمورے ميں آباد تھے يوناني بھي

اسي دنيا ميں يہودي بھي تھے ، نصراني بھي

پر ترے نام پہ تلوار اٹھائي کس نے

بات جو بگڑي ہوئي تھي ، وہ بنائي کس نے

تھے ہميں ايک ترے معرکہ آراؤں ميں

خشکيوں ميں کبھي لڑتے ، کبھي درياؤں ميں

ديں اذانيں کبھي يورپ کے کليساؤں ميں

کبھي افريقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں ميں

شان آنکھوں ميں نہ جچتي تھي جہاں داروں کي

کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں ميں تلواروں کي

ہم جو جيتے تھے تو جنگوں کے مصيبت کے ليے

اور مرتے تھے ترے نام کي عظمت کے ليے

تھي نہ کچھ تيغ زني اپني حکومت کے ليے

سربکف پھرتے تھے کيا دہر ميں دولت کے ليے؟

قوم اپني جو زر و مال جہاں پر مرتي

بت فروشي کے عوض بت شکني کيوں کرتي!

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ ميں اڑ جاتے تھے

پاؤں شيروں کے بھي ميداں سے اکھڑ جاتے تھے

تجھ سے سرکش ہوا کوئي تو بگڑ جاتے تھے

تيغ کيا چيز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحيد کا ہر دل پہ بٹھايا ہم نے

زير خنجر بھي يہ پيغام سنايا ہم نے

تو ہي کہہ دے کہ اکھاڑا در خيبر کس نے

شہر قيصر کا جو تھا ، اس کو کيا سر کس نے

توڑے مخلوق خداوندوں کے پيکر کس نے

کاٹ کر رکھ ديے کفار کے لشکر کس نے

کس نے ٹھنڈا کيا آتشکدہ ايراں کو؟

کس نے پھر زندہ کيا تذکرہ يزداں کو؟

کون سي قوم فقط تيري طلب گار ہوئي

اور تيرے ليے زحمت کش پيکار ہوئي

کس کي شمشير جہاں گير ، جہاں دار ہوئي

کس کي تکبير سے دنيا تري بيدار ہوئي

کس کي ہيبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے

منہ کے بل گر کے 'ھو اللہ احد' کہتے تھے

آ گيا عين لڑائي ميں اگر وقت نماز

قبلہ رو ہو کے زميں بوس ہوئي قوم حجاز

ايک ہي صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز

نہ کوئي بندہ رہا اور نہ کوئي بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غني ايک ہوئے

تيري سرکار ميں پہنچے تو سبھي ايک ہوئے

محفل کون و مکاں ميں سحر و شام پھرے

مے توحيد کو لے کر صفت جام پھرے

کوہ ميں ، دشت ميں لے کر ترا پيغام پھرے

اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھي ناکام پھرے!

دشت تو دشت ہيں ، دريا بھي نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات ميں دوڑا ديے گھوڑے ہم نے

صفحہ دہر سے باطل کو مٹايا ہم نے

نوع انساں کو غلامي سے چھڑايا ہم نے

تيرے کعبے کو جبينوں سے بسايا ہم نے

تيرے قرآن کو سينوں سے لگايا ہم نے

پھر بھي ہم سے يہ گلہ ہے کہ وفادار نہيں

ہم وفادار نہيں ، تو بھي تو دلدار نہيں!

امتيں اور بھي ہيں ، ان ميں گنہ گار بھي ہيں

عجز والے بھي ہيں ، مست مےء پندار بھي ہيں

ان ميں کاہل بھي ہيں، غافل بھي ہيں، ہشيار بھي ہيں

سينکڑوں ہيں کہ ترے نام سے بيزار بھي ہيں

رحمتيں ہيں تري اغيار کے کاشانوں پر

برق گرتي ہے تو بيچارے مسلمانوں پر

بت صنم خانوں ميں کہتے ہيں ، مسلمان گئے

ہے خوشي ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

منزل دہر سے اونٹوں کے حدي خوان گئے

اپني بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے

خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہيں

اپني توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہيں

يہ شکايت نہيں ، ہيں ان کے خزانے معمور

نہيں محفل ميں جنھيں بات بھي کرنے کا شعور

قہر تو يہ ہے کہ کافر کو مليں حور و قصور

اور بيچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور

اب وہ الطاف نہيں ، ہم پہ عنايات نہيں

بات يہ کيا ہے کہ پہلي سي مدارات نہيں

کيوں مسلمانوں ميں ہے دولت دنيا ناياب

تيري قدرت تو ہے وہ جس کي نہ حد ہے نہ حساب

تو جو چاہے تو اٹھے سينہء صحرا سے حباب

رہرو دشت ہو سيلي زدہء موج سراب

طعن اغيار ہے ، رسوائي ہے ، ناداري ہے

کيا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواري ہے؟

بني اغيار کي اب چاہنے والي دنيا

رہ گئي اپنے ليے ايک خيالي دنيا

ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالي دنيا

پھر نہ کہنا ہوئي توحيد سے خالي دنيا

ہم تو جيتے ہيں کہ دنيا ميں ترا نام رہے

کہيں ممکن ہے کہ ساقي نہ رہے ، جام رہے!

تيري محفل بھي گئي ، چاہنے والے بھي گئے

شب کے آہيں بھي گئيں ، صبح کے نالے بھي گئے

دل تجھے دے بھي گئے ، اپنا صلا لے بھي گئے

آ کے بيٹھے بھي نہ تھے اور نکالے بھي گئے

آئے عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر

اب انھيں ڈھونڈ چراغ رخ زيبا لے کر

درد ليلي بھي وہي ، قيس کا پہلو بھي وہي

نجد کے دشت و جبل ميں رم آہو بھي وہي

عشق کا دل بھي وہي ، حسن کا جادو بھي وہي

امت احمد مرسل بھي وہي ، تو بھي وہي

پھر يہ آزردگي غير سبب کيا معني

اپنے شيداؤں پہ يہ چشم غضب کيا معني

تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربي کو چھوڑا؟

بت گري پيشہ کيا ، بت شکني کو چھوڑا؟

عشق کو ، عشق کي آشفتہ سري کو چھوڑا؟

رسم سلمان و اويس قرني کو چھوڑا؟

آگ تکبير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں

زندگي مثل بلال حبشي رکھتے ہيں

عشق کي خير وہ پہلي سي ادا بھي نہ سہي

جادہ پيمائي تسليم و رضا بھي نہ سہي

مضطرب دل صفت قبلہ نما بھي نہ سہي

اور پابندي آئين وفا بھي نہ سہي

کبھي ہم سے ، کبھي غيروں سے شناسائي ہے

بات کہنے کي نہيں ، تو بھي تو ہرجائي ہے !

سر فاراں پہ کيا دين کو کامل تو نے

اک اشارے ميں ہزاروں کے ليے دل تو نے

آتش اندوز کيا عشق کا حاصل تو نے

پھونک دي گرمي رخسار سے محفل تو نے

آج کيوں سينے ہمارے شرر آباد نہيں

ہم وہي سوختہ ساماں ہيں ، تجھے ياد نہيں؟

وادي نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا

قيس ديوانہ نظارہ محمل نہ رہا

حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا

گھر يہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا

اے خوش آں روز کہ آئي و بصد ناز آئي

بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئي

بادہ کش غير ہيں گلشن ميں لب جو بيٹھے

سنتے ہيں جام بکف نغمہ کو کو بيٹھے

دور ہنگامہ گلزار سے يک سو بيٹھے

تيرے ديوانے بھي ہيں منتظر 'ھو' بيٹھے

اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزي دے

برق ديرينہ کو فرمان جگر سوزي دے

قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز

لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز

مضطرب باغ کے ہر غنچے ميں ہے بوئے نياز

تو ذرا چھيڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز

نغمے بے تاب ہيں تاروں سے نکلنے کے ليے

طور مضطر ہے اسي آگ ميں جلنے کے ليے

مشکليں امت مرحوم کي آساں کر دے

مور بے مايہ کو ہمدوش سليماں کر دے

جنس ناياب محبت کو پھر ارزاں کر دے

ہند کے دير نشينوں کو مسلماں کر دے

جوئے خوں مي چکد از حسرت ديرينہء ما

مي تپد نالہ بہ نشتر کدہ سينہ ما

بوئے گل لے گئي بيرون چمن راز چمن

کيا قيامت ہے کہ خود پھول ہيں غماز چمن !

عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گيا ساز چمن

اڑ گئے ڈاليوں سے زمزمہ پرواز چمن

ايک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک

اس کے سينے ميں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

قمرياں شاخ صنوبر سے گريزاں بھي ہوئيں

پےتاں پھول کي جھڑ جھڑ کے پريشاں بھي ہوئيں

وہ پراني روشيں باغ کي ويراں بھي ہوئيں

ڈالياں پيرہن برگ سے عرياں بھي ہوئيں

قيد موسم سے طبيعت رہي آزاد اس کي

کاش گلشن ميں سمجھتا کوئي فرياد اس کي!

لطف مرنے ميں ہے باقي ، نہ مزا جينے ميں

کچھ مزا ہے تو يہي خون جگر پينے ميں

کتنے بے تاب ہيں جوہر مرے آئينے ميں

کس قدر جلوے تڑپتے ہيں مرے سينے ميں

اس گلستاں ميں مگر ديکھنے والے ہي نہيں

داغ جو سينے ميں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہي نہيں

چاک اس بلبل تنہا کي نوا سے دل ہوں

جاگنے والے اسي بانگ درا سے دل ہوں

يعني پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں

پھر اسي بادہء ديرينہ کے پياسے دل ہوں

عجمي خم ہے تو کيا ، مے تو حجازي ہے مري

نغمہ ہندي ہے تو کيا ، لے تو حجازي ہے مري!



Raat Bhar Machar ny Keh dia Muj sy

رات مچھر نے کہہ ديا مجھ سے




رات مچھر نے کہہ ديا مجھ سے

ماجرا اپني ناتمامي کا

مجھ کو ديتے ہيں ايک بوند لہو

صلہ شب بھر کي تشنہ کامي کا

اور يہ بسوہ دار، بے زحمت

پي گيا سب لہو اسامي کا



Mun Apna Purana Paapi Hai, Basoon main Namazi Ban na saka

من اپنا پرانا پاپي ہے، برسوں ميں نمازي بن نہ سکا





مسجد تو بنا دي شب بھر ميں ايماں کي حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپي ہے، برسوں ميں نمازي بن نہ سکا

کيا خوب امير فيصل کو سنوسي نے پيغام ديا

تو نام و نسب کا حجازي ہے پر دل کا حجازي بن نہ سکا

تر آنکھيں تو ہو جاتي ہيں، پر کيا لذت اس رونے ميں

جب خون جگر کي آميزش سے اشک پيازي بن نہ سکا

اقبال بڑا اپديشک ہے من باتوں ميں موہ ليتا ہے

گفتارکا يہ غازي تو بنا ،کردار کا غازي بن نہ سکا



Dalil-e-Subah Roshan hai Sitaroon ki tink Tabi ( Taloh-e-Islam )

دليل صبح روشن ہے ستاروں کي تنک تابي





دليل صبح روشن ہے ستاروں کي تنک تابي

افق سے آفتاب ابھرا ،گيا دور گراں خوابي

عروق مردئہ مشرق ميں خون زندگي دوڑا

سمجھ سکتے نہيں اس راز کو سينا و فارابي

مسلماں کو مسلماں کر ديا طوفان مغرب نے

تلاطم ہائے دريا ہي سے ہے گوہر کي سيرابي

عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے

شکوہ ترکماني، ذہن ہندي، نطق اعرابي

اثر کچھ خواب کا غنچوں ميں باقي ہے تو اے بلبل!

''نوا را تلخ تر مي زن چو ذوق نغمہ کم يابي''

تڑپ صحن چمن ميں، آشياں ميں ، شاخساروں ميں

جدا پارے سے ہو سکتي نہيں تقدير سيمابي

وہ چشم پاک بيں کيوں زينت برگستواں ديکھے

نظر آتي ہے جس کو مرد غازي کي جگر تابي

ضمير لالہ ميں روشن چراغ آرزو کر دے

چمن کے ذرے ذرے کو شہيد جستجو کر دے

سرشک چشم مسلم ميں ہے نيساں کا اثر پيدا

خليل اللہ کے دريا ميں ہوں گے پھر گہر پيدا

کتاب ملت بيضا کي پھر شيرازہ بندي ہے

يہ شاخ ہاشمي کرنے کو ہے پھر برگ و بر پيدا

ربود آں ترک شيرازي دل تبريز و کابل را

صبا کرتي ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پيدا

اگر عثمانيوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کيا غم ہے

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتي ہے سحر پيدا

جہاں باني سے ہے دشوار تر کار جہاں بيني

جگر خوں ہو تو چشم دل ميں ہوتي ہے نظر پيدا

ہزاروں سال نرگس اپني بے نوري پہ روتي ہے

بڑي مشکل سے ہوتا ہے چمن ميں ديدہ ور پيدا

نوا پيرا ہو اے بلبل کہ ہو تيرے ترنم سے

کبوتر کے تن نازک ميں شاہيں کا جگر پيدا

ترے سينے ميں ہے پوشيدہ راز زندگي کہہ دے

مسلماں سے حديث سوز و ساز زندگي کہہ دے

خدائے لم يزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے

يقيں پيدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

پرے ہے چرخ نيلي فام سے منزل مسلماں کي

ستارے جس کي گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے

مکاں فاني ، مکيں آني، ازل تيرا، ابد تيرا

خدا کا آخري پيغام ہے تو، جاوداں تو ہے

حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تيرا

تري نسبت براہيمي ہے، معمار جہاں تو ہے

تري فطرت اميں ہے ممکنات زندگاني کي

جہاں کے جوہر مضمر کا گويا امتحاں تو ہے

جہان آب و گل سے عالم جاويد کي خاطر

نبوت ساتھ جس کو لے گئي وہ ارمغاں تو ہے

يہ نکتہ سرگزشت ملت بيضا سے ہے پيدا

کہ اقوام زمين ايشيا کا پاسباں تو ہے

سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا

ليا جائے گا تجھ سے کام دنيا کي امامت کا

يہي مقصود فطرت ہے، يہي رمز مسلماني

اخوت کي جہاں گيري، محبت کي فراواني

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت ميں گم ہو جا

نہ توراني رہے باقي، نہ ايراني، نہ افغاني

ميان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک!

ترے بازو ميں ہے پرواز شاہين قہستاني

گمان آباد ہستي ميں يقيں مرد مسلماں کا

بياباں کي شب تاريک ميں قنديل رہباني

مٹايا قيصر و کسري کے استبداد کو جس نے

وہ کيا تھا، زور حيدر، فقر بوذر، صدق سلماني

ہوئے احرار ملت جادہ پيما کس تجمل سے

تماشائي شگاف در سے ہيں صديوں کے زنداني

ثبات زندگي ايمان محکم سے ہے دنيا ميں

کہ الماني سے بھي پائندہ تر نکلا ہے توراني

جب اس انگارئہ خاکي ميں ہوتا ہے يقيں پيدا

تو کر ليتا ہے يہ بال و پر روح الاميں پيدا

غلامي ميں نہ کام آتي ہيں شمشيريں نہ تدبيريں

جو ہو ذوق يقيں پيدا تو کٹ جاتي ہيں زنجيريں

کوئي اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتي ہيں تقديريں

ولايت ، پادشاہي ، علم اشيا کي جہاں گيري

يہ سب کيا ہيں، فقط اک نکتہء ايماں کي تفسيريں

براہيمي نظر پيدا مگر مشکل سے ہوتي ہے

ہوس چھپ چھپ کے سينوں ميں بنا ليتي ہے تصويريں

تميز بندہ و آقا فساد آدميت ہے

حذر اے چيرہ دستاں! سخت ہيں فطرت کي تغريريں

حقيقت ايک ہے ہر شے کي، خاکي ہو کہ نوري ہو

لہو خورشيد کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چيريں

يقيں محکم، عمل پيہم، محبت فاتح عالم

جہاد زندگاني ميں ہيں يہ مردوں کي شمشيريں

چہ بايد مرد را طبع بلندے ، مشرب نابے

دل گرمے ، نگاہ پاک بينے ، جان بيتابے

عقابي شان سے جھپٹے تھے جو ، بے بال و پر نکلے

ستارے شام کے خون شفق ميں ڈوب کر نکلے

ہوئے مدفون دريا زير دريا تيرنے والے

طمانچے موج کے کھاتے تھے ، جو ، بن کر گہر نکلے

غبار رہ گزر ہيں، کيميا پر ناز تھا جن کو

جبينيں خاک پر رکھتے تھے جو، اکسير گر نکلے

ہمارا نرم رو قاصد پيام زندگي لايا

خبر ديتي تھيں جن کو بجلياں وہ بے خبر نکلے

حرم رسوا ہوا پير حرم کي کم نگاہي سے

جوانان تتاري کس قدر صاحب نظر نکلے

زميں سے نوريان آسماں پرواز کہتے تھے

يہ خاکي زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے

جہاں ميں اہل ايماں صورت خورشيد جيتے ہيں

ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے

يقيں افراد کا سرمايہ تعمير ملت ہے

يہي قوت ہے جو صورت گر تقدير ملت ہے

تو راز کن فکاں ہے، اپني انکھوں پر عياں ہو جا

خودي کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا

ہوس نے کر ديا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو

اخوت کا بياں ہو جا، محبت کي زباں ہو جا

يہ ہندي، وہ خراساني، يہ افغاني، وہ توراني

تو اے شرمندئہ ساحل! اچھل کر بے کراں ہو جا

غبار آلودئہ رنگ ونسب ہيں بال و پر تيرے

تو اے مرغ حرم! اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا

خودي ميں ڈوب جا غافل! يہ سر زندگاني ہے

نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا

مصاف زندگي ميں سيرت فولاد پيدا کر

شبستان محبت ميں حرير و پرنياں ہو جا

گزر جا بن کے سيل تند رو کوہ و بياباں سے

گلستاں راہ ميں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا

ترے علم و محبت کي نہيں ہے انتہا کوئي

نہيں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت ميں نوا کوئي

ابھي تک آدمي صيد زبون شہرياري ہے

قيامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاري ہے

نظر کو خيرہ کرتي ہے چمک تہذيب حاضر کي

يہ صناعي مگر جھوٹے نگوں کي ريزہ کاري ہے

وہ حکمت ناز تھا جس پر خرو مندان مغرب کو

ہوس کے پنچہ خونيں ميں تيغ کارزاري ہے

تدبر کي فسوں کاري سے محکم ہو نہيں سکتا

جہاں ميں جس تمدن کي بنا سرمايہ داري ہے

عمل سے زندگي بنتي ہے جنت بھي، جہنم بھي

يہ خاکي اپني فطرت ميں نہ نوري ہے نہ ناري ہے

خروش آموز بلبل ہو ، گرہ غنچے کي وا کر دے

کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاري ہے

پھر اٹھي ايشيا کے دل سے چنگاري محبت کي

زميں جولاں گہ اطلس قبايان تتاري ہے

بيا پيدا خريدارست جان ناتوانے را

''پس از مدت گذار افتاد بر ما کاروانے را''

بيا ساقي نواے مرغ زار از شاخسار آمد

بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد

کشيد ابر بہاري خيمہ اندر وادي و صحرا

صداے آبشاراں از فراز کوہسار آمد

سرت گردم تو ہم قانون پيشيں سازدہ ساقي

کہ خيل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد

کنار از زاہداں برگيروبے باکانہ ساغر کش

پس از مدت ازيں شاخ کہن بانگ ہزار آمد

بہ مشتاقاں حديث خواجہ بدر و حنين آور

تصرف ہاے پنہانش بچشمم آشکار آمد

دگر شاخ خليل از خون ما نم ناک مي گرد

بيازار محبت نقد ما کامل عيار آمد

سر خاک شہيدے برگہاے لالہ مي پاشم

کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد

''بيا تا گل بيفشانيم و مے در ساغر اندازيم

فلک را سقف بشگافيم و طرح ديگر اندازيم''



Pewasta rahe Shajar sy Umeed-e-bahar Rakh

ڈالي گئي جو فصل خزاں ميں شجر سے ٹوٹ





ڈالي گئي جو فصل خزاں ميں شجر سے ٹوٹ

ممکن نہيں ہري ہو سحاب بہار سے

ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے

کچھ واسطہ نہيں ہے اسے برگ و بار سے

ہے تيرے گلستاں ميں بھي فصل خزاں کا دور

خالي ہے جيب گل زر کامل عيار سے

جو نغمہ زن تھے خلوت اوراق ميں طيور

رخصت ہوئے ترے شجر سايہ دار سے

شاخ بريدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو

ناآشنا ہے قاعدئہ روزگار سے

ملت کے ساتھ رابطہء استوار رکھ

پيوستہ رہ شجر سے ، اميد بہار رکھ!



Murshad ki ye Tahleem thi eh Muslim shorida-e-sir

مرشد کي يہ تعليم تھي اے مسلم شوريدہ سر





مرشد کي يہ تعليم تھي اے مسلم شوريدہ سر

لازم ہے رہرو کے ليے دنيا ميں سامان سفر

بدلي زمانے کي ہوا ، ايسا تغير آگيا

تھے جو گراں قميت کبھي، اب ہيں متاع کس مخر

وہ شعلہ روشن ترا ظلمت گريزاں جس سے تھي

گھٹ کر ہوا مثل شرر تارے سے بھي کم نور تر

شيدائي غائب نہ رہ، ديوانہء موجود ہو

غالب ہے اب اقوام پر معبود حاضر کا اثر

ممکن نہيں اس باغ ميں کوشش ہو بار آور تري

فرسودہ ہے پھندا ترا، زيرک ہے مرغ تيز پر

اس دور ميں تعليم ہے امراض ملت کي دوا

ہے خون فاسد کے ليے تعليم مثل نيشتر

رہبر کے ايما سے ہوا تعليم کا سودا مجھے

واجب ہے صحرا گرد پر تعميل فرمان خضر

ليکن نگاہ نکتہ بيں ديکھے زبوں بختي مري

''رفتم کہ خار از پا کشم ،محمل نہاں شد از نظر

يک لحظ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد''



Elahi Aqal-e-Khajasta pe ko zara si Diwangi Sikha Dy

الہي عقل خجستہ پے کو ذرا سي ديوانگي سکھا دے





الہي عقل خجستہ پے کو ذرا سي ديوانگي سکھا دے

اسے ہے سودائے بخيہ کاري ، مجھے سر پيرہن نہيں ہے

ملا محبت کا سوز مجھ کو تو بولے صبح ازل فرشتے

مثال شمع مزار ہے تو ، تري کوئي انجمن نہيں ہے

يہاں کہاں ہم نفس ميسر ، يہ ديس نا آشنا ہے اے دل!

وہ چيز تو مانگتا ہے مجھ سے کہ زير چرخ کہن نہيں ہے

نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنايا

بنا ہمارے حصار ملت کي اتحاد وطن نہيں ہے

کہاں کا آنا ، کہاں کا جانا ، فريب ہے امتياز عقبي

نمود ہر شے ميں ہے ہماري ، کہيں ہمارا وطن نہيں ہے

مدير 'مخزن' سے کوئي اقبال جا کے ميرا پيام کہہ دے

جوکام کچھ کر رہي ہيں قوميں ، انھيں مذاق سخن نہيں ہے



Zindagi Insaan ki Ik dam k siwa kuch bhi nahi

زندگي انساں کي اک دم کے سوا کچھ بھي نہيں




زندگي انساں کي اک دم کے سوا کچھ بھي نہيں

دم ہوا کي موج ہے ، رم کے سوا کچھ بھي نہيں

گل تبسم کہہ رہا تھا زندگاني کو مگر

شمع بولي ، گريہء غم کے سوا کچھ بھي نہيں

راز ہستي راز ہے جب تک کوئي محرم نہ ہو

کھل گيا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھي نہيں

زائران کعبہ سے اقبال يہ پوچھے کوئي

کيا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھي نہيں!



Tery Ishq ki Intahaa Chahta hon


ترے عشق کي انتہا چاہتا ہوں







ترے عشق کي انتہا چاہتا ہوں

مري سادگي ديکھ کيا چاہتا ہوں

ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابي

کوئي بات صبر آزما چاہتا ہوں

يہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو

کہ ميں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا

وہي لن تراني سنا چاہتا ہوں

کوئي دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل

چراغ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں

بھري بزم ميں راز کي بات کہہ دي

بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں



Jinhain mein doondta tha Aasmanon main

جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميں

 
جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميں

وہ نکلے ميرے ظلمت خانہ دل کے مکينوں ميں

حقيقت اپني آنکھوں پر نماياں جب ہوئي اپني

مکاں نکلا ہمارے خانہ دل کے مکينوں ميں

اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہہ سائي سے

تو سنگ آستاں کعبہ جا ملتا جبينوں ميں

کبھي اپنا بھي نظارہ کيا ہے تو نے اے مجنوں

کہ ليلي کي طرح تو خود بھي ہے محمل نشينوں ميں

مہينے وصل کے گھڑيوں کي صورت اڑتے جاتے ہيں

مگر گھڑياں جدائي کي گزرتي ہيں مہينوں ميں

مجھے روکے گا تو اے ناخدا کيا غرق ہونے سے

کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہيں سفينوں ميں

چھپايا حسن کو اپنے کليم اللہ سے جس نے

وہي ناز آفريں ہے جلوہ پيرا نازنينوں ميں

جلا سکتي ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کي

الہي! کيا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سينوں ميں

تمنا درد دل کي ہو تو کر خدمت فقيروں کي

نہيں ملتا يہ گوہر بادشاہوں کے خزينوں ميں

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کي ، ارادت ہو تو ديکھ ان کو

يد بيضا ليے بيٹھے ہيں اپني آستينوں ميں

ترستي ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو

وہ رونق انجمن کي ہے انھي خلوت گزينوں ميں

کسي ايسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو

کہ خورشيد قيامت بھي ہو تيرے خوشہ چينوں ميں

محبت کے ليے دل ڈھونڈ کوئي ٹوٹنے والا

يہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہيں نازک آبگينوں ميں

سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق

بھلا اے دل حسيں ايسا بھي ہے کوئي حسينوں ميں

پھڑک اٹھا کوئي تيري ادائے 'ما عرفنا' پر

ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرينوں ميں

نماياں ہو کے دکھلا دے کبھي ان کو جمال اپنا

بہت مدت سے چرچے ہيں ترے باريک بينوں ميں

خموش اے دل! ، بھري محفل ميں چلانا نہيں اچھا

ادب پہلا قرينہ ہے محبت کے قرينوں ميں

برا سمجھوں انھيں مجھ سے تو ايسا ہو نہيں سکتا

کہ ميں خود بھي تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چينوں ميں



Wednesday, September 1, 2010

گرچہ تو زنداني اسباب ہے

گرچہ تو زنداني اسباب ہے



گرچہ تو زنداني اسباب ہے

قلب کو ليکن ذرا آزاد رکھ

عقل کو تنقيد سے فرصت نہيں

عشق پر اعمال کي بنياد رکھ

اے مسلماں! ہر گھڑي پيش نظر

آيہ 'لا يخلف الميعاد' رکھ

يہ 'لسان العصر' کا پيغام ہے

''ان وعد اللہ حق'' ياد رکھ''

ہمد ر د ي

ہمد ر د ي

ٹہني پہ کسي شجر کي تنہا


بلبل تھا کوئي اداس بيٹھا

کہتا تھا کہ رات سر پہ آئي

اڑنے چگنے ميں دن گزارا

پہنچوں کس طرح آشياں تک

ہر چيز پہ چھا گيا اندھيرا

سن کر بلبل کي آہ و زاري

جگنو کوئي پاس ہي سے بولا

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے

کيڑا ہوں اگرچہ ميں ذرا سا

کيا غم ہے جو رات ہے اندھيري

ميں راہ ميں روشني کروں گا

اللہ نے دي ہے مجھ کو مشعل

چمکا کے مجھے ديا بنايا

ہيں لوگ وہي جہاں ميں اچھے

آتے ہيں جو کام دوسرں کے

ايک مکڑا اور مکھي

ايک مکڑا اور مکھي

اک دن کسي مکھي سے يہ کہنے لگا مکڑا


اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا

ليکن مري کٹيا کي نہ جاگي کبھي قسمت

بھولے سے کبھي تم نے يہاں پائوں نہ رکھا

غيروں سے نہ مليے تو کوئي بات نہيں ہے

اپنوں سے مگر چاہيے يوں کھنچ کے نہ رہنا

آئو جو مرے گھر ميں تو عزت ہے يہ ميري

وہ سامنے سيڑھي ہے جو منظور ہو آنا

مکھي نے سني بات جو مکڑے کي تو بولي

حضرت! کسي نادان کو ديجے گا يہ دھوکا

اس جال ميں مکھي کبھي آنے کي نہيں ہے

جو آپ کي سيڑھي پہ چڑھا ، پھر نہيں اترا

مکڑے نے کہا واہ! فريبي مجھے سمجھے

تم سا کوئي نادان زمانے ميں نہ ہو گا

منظور تمھاري مجھے خاطر تھي وگرنہ

کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس ميں نہيں تھا

اڑتي ہوئي آئي ہو خدا جانے کہاں سے

ٹھہرو جو مرے گھر ميں تو ہے اس ميں برا کيا!

اس گھر ميں کئي تم کو دکھانے کي ہيں چيزيں

باہر سے نظر آتا ہے چھوٹي سي يہ کٹيا

لٹکے ہوئے دروازوں پہ باريک ہيں پردے

ديواروں کو آئينوں سے ہے ميں نے سجايا

مہمانوں کے آرام کو حاضر ہيں بچھونے

ہر شخص کو ساماں يہ ميسر نہيں ہوتا

مکھي نے کہا خير ، يہ سب ٹھيک ہے ليکن

ميں آپ کے گھر آئوں ، يہ اميد نہ رکھنا

ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے

سو جائے کوئي ان پہ تو پھر اٹھ نہيں سکتا

مکڑے نے کہا دل ميں سني بات جو اس کي

پھانسوں اسے کس طرح يہ کم بخت ہے دانا

سو کام خوشامد سے نکلتے ہيں جہاں ميں

ديکھو جسے دنيا ميں خوشامد کا ہے بندا

يہ سوچ کے مکھي سے کہا اس نے بڑي بي !

اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبا

ہوتي ہے اسے آپ کي صورت سے محبت

ہو جس نے کبھي ايک نظر آپ کو ديکھا

آنکھيں ہيں کہ ہيرے کي چمکتي ہوئي کنياں

سر آپ کا اللہ نے کلغي سے سجايا

يہ حسن ، يہ پوشاک ، يہ خوبي ، يہ صفائي

پھر اس پہ قيامت ہے يہ اڑتے ہوئے گانا

مکھي نے سني جب يہ خوشامد تو پسيجي

بولي کہ نہيں آپ سے مجھ کو کوئي کھٹکا

انکار کي عادت کو سمجھتي ہوں برا ميں

سچ يہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہيں ہوتا

يہ بات کہي اور اڑي اپني جگہ سے

پاس آئي تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا

بھوکا تھا کئي روز سے اب ہاتھ جو آئي

آرام سے گھر بيٹھ کے مکھي کو اڑايا

گل رنگيں

تو شناسائے خراش عقدئہ مشکل نہيں


اے گل رنگيں ترے پہلو ميں شايد دل نہيں

زيب محفل ہے ، شريک شورش محفل نہيں

يہ فراغت بزم ہستي ميں مجھے حاصل نہيں

اس چمن ميں ميں سراپا سوز و ساز آرزو

اور تيري زندگاني بے گداز آرزو

توڑ لينا شاخ سے تجھ کو مرا آئيں نہيں

يہ نظر غير از نگاہ چشم صورت بيں نہيں

آہ! يہ دست جفاجو اے گل رنگيں نہيں

کس طرح تجھ کو يہ سمجھائوں کہ ميں گلچيں نہيں

کام مجھ کو ديدئہ حکمت کے الجھيڑوں سے کيا

ديدئہ بلبل سے ميں کرتا ہوں نظارہ ترا

سو زبانوں پر بھي خاموشي تجھے منظور ہے

راز وہ کيا ہے ترے سينے ميں جو مستور ہے

ميري صورت تو بھي اک برگ رياض طور ہے

ميں چمن سے دور ہوں تو بھي چمن سے دور ہے

مطمئن ہے تو ، پريشاں مثل بو رہتا ہوں ميں

زخمي شمشير ذوق جستجو رہتا ہوں ميں

يہ پريشاني مري سامان جمعيت نہ ہو

يہ جگر سوزي چراغ خانہ حکمت نہ ہو

ناتواني ہي مري سرمايہ قوت نہ ہو

رشک جام جم مرا آ ينہ حيرت نہ ہو

يہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے

توسن ادراک انساں کو خرام آموز ہے